Maulana Fazal Rehman latest News

الیکشن 2024 کے نتائج مسترد کرتے ہیں حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے مولانا فضل الرحمن

الیکشن 2024 کے نتائج مسترد کرتے ہیں حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے مولانا فضل الرحمن

فوج کا 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے

عمران خان نے روف حسن کو کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے بات کی جائے۔

ہم نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے تابعدار نہیں ہیں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا۔

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس جمعیت مرکزی سیکرٹ اسلام آباد میں دو روز جاری رہا مرکزی مجلس عاملہ نے اٹھ فروری 2024 کے انتخابی نتائج کو مجموعی طور پر مسترد کر دیا ہے انتخابی دھاندلی نے 2018 کے انتخابات کی دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔
الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے۔
جمیعت علماء اسلام الیکشن کمیشن کے اس بیان کو مسترد کرتی ہے جس میں انہوں نے الیکشن کو شفاف قرار دیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کی نظر میں پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے۔
لگتا ہے اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔
انشاءاللہ جمعیت علمائے اسلام پارلیمانی کردار ادا کرے گی تاہم اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہوگی۔ مرکزی مجلس عاملہ نے جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس عمومی کو سفارش کی ہے کہ وہ جمعیت کی پارلیمانی سیاست کے بارے میں فیصلہ کریں کہ جمعیت مستقل طور پر پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہو اور عوامی جدوجہد کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ماحول میں عوام کی حقیقی نمائندگی کی حامل اسمبلیوں کے انتخاب کو ممکن بنایا جا سکے۔
اس سلسلے میں چاروں صوبائی مجالس عمومی کے اجلاس صوبوں کے مرکزی مقامات میں بلائے جائیں گے تاکہ مرکزی عاملہ کے فیصلوں کے بارے میں صوبوں کو بھی اعتماد میں لیا جا سکے۔
جمعیت علماء اسلام کو دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی اسلام دشمن عالمی قوتوں کے دباؤ سے ہوئی ہے۔
ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کے استحکام اور پاکستان افغانستان کے پرمن تعلقات کے حوالے سے کردار ادا کیا ہے۔
جو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہے ہمارا جرم یہ ہے کہ جمیعت علماء اسلام نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف فلسطینیوں اور حماس کے موقف کی حمایت کی ہے۔
لیکن جمعیت علماء اسلام ایک نظریاتی قوت ہے ملک کے داخلی نظام اور بین الاقوامی مسائل اور کسی مصلحت یا سمجھوتے کا شکار نہیں ہوگی اور وسیع مشاورت کے بعد ملک میں اپنے عظیم تر مقاصد کے لیے تحریک چلائیں گے۔
کارکن اپنی تاریخ کو اپنی قربانیوں سے تابندہ رکھنے کے عزم کے ساتھ تحریک میں اترنے کے لیے تیار رہے اگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو پھر اس کا معنی یہ ہے کہ فوج کا نو مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا ہے۔
اور پھر قوم نے جیسے کہیں غداروں کو مینڈیٹ دیا۔
الیکشن کے نتائج اس بات کا بھی واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ کامیاب یا شکست خوردہ امیدواروں سے بڑی بڑی رشوتیں لی گئی ہیں 

اور بعض کو تو پیسے کے بدلے میں پوری کی پوری اسمبلیاں عطا کی گئی ہیں۔اسی لیے میں مسلم لیگ نواز شریف کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور ہم مل کر اپوزیشن میں بیٹھیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار روز اول سے مشکوک رہا ہے۔
اور اب بھی اسلام اباد میں الیکشن کمیشن ہمارے امیدواروں کی درخواستوں کو سماعت سے انکار کر رہا ہے۔
اور نوٹس جاری کیے بغیر درخواستوں کو خارج کر رہا ہے۔
ہم 22 فروری کو اسلام آباد میں یہاں کی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔
اور 25 فروری کو ہم بلوچستان میں اپنی صوبائی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے 27 فروری کو خیبر پختون خواہ بشمول فاٹا کے پشاور میں جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے اور تین مارچ کو ہم کراچی میں صوبہ سندھ کی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے اور اور پانچ مارچ کو ہم لاہور میں پنجاب کی صوبائی جنرل کونسل کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ جس طرح اپ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کل عمران خان نے تین جماعتوں کا کہا ہے کہ ان سے بات نہیں کرنی اور وہ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں۔
اس میں آپ کا ذکر نہیں ہے تو کیا آپ پی ٹی ائی کے ساتھ مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے؟ جبکہ عمران خان صاحب نے اپنے رہنماؤں رؤف حسن وغیرہ سے کہا ہے کہ آپ سے بات کی جائے تو کیا آپ بات کریں گے؟
تو اس کے جواب میں مولانا نے کہا پی ٹی ائی کے ساتھ ہمارے اختلافات رہے ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن ایوان تو سب کا ہوتا ہے ہمیں ان کے جسموں سے کوئی جھگڑا نہیں ان کے دماغوں سے ذرا جھگڑا ہے وہ ٹھیک ہو جائے گا خدا کرے ٹھیک ہو جائے۔
اس الیکشن میں دھاندھلی پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مسلم لیگ کا وہ امیدوار جو محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں دستبردار ہو چکا تھا وہ اس دستبرداری کی حالت میں سویا ہوا تھا اسے جا کر کہا کہ آپ جیت گئے ہیں۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ہم حکومتی بینچوں پر بیٹھیں گے لیکن وزارتیں نہیں لیں گے کیا آپ بھی حکومتی بنچ پر بیٹھیں گے تو اس کے جواب میں مولانا نے کہا ہم نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے تابعدار نہیں ہیں ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے جیسا کہ آپ نے سنا۔
اسی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں نے جو بیان دیا ہے یہ مرکزی مجلس عامہ کا بیان ہے فضل الرحمان کا بیان نہ لیا جائے۔
اور مزید کہا کہ ہم نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں جائیں گے اور اپنے تحفظات کے ساتھ جائیں گے اور اپنی حیثیت سے جائیں گے جو بھی ہماری پارلیمانی حیثیت ہوگی ہم وہاں اپنی آواز بلند کریں گے ہم کسی بھی پارٹی کے ساتھ کوئی اتحادی نہیں ہوں گے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ اپ کے تعلقات دوسری جماعتوں کے ساتھ اچھے ہیں اور پہلے بھی آپ ان کے اتحادی رہے ہیں تو کیا اب اگر وہ اپ کے پاس ائے تو اپ ان کے ساتھ اتحاد کریں گے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے یہ جماعت کا فیصلہ ہے۔

اسی دوران ایک سوال کیا گیا کہ کیا آپ شہباز شریف کو ووٹ دیں گے تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے جواب دیا کہ ہم حکومت کے اتحادی نہیں ہیں۔
اس پر مزید کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو وہ آئے جس طرح پہلے آئے تھے ہمارے ساتھ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ بیٹھیں اسمبلیوں میں۔ ہم اکیلے اپنا فرض ادا کریں گے۔
سوال ہوا کوئی خاص حلقہ آپ بتانا چاہیں گے جہاں دھاندلی ہوئی ہو تو جواب میں کہا ہم پورے ملک میں انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں کسی ایک خاص حلقہ پر بات نہیں کریں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top