Nawaz Sharif's politics in future

حال اور مستقبل میں نواز شریف کی سیاست

مستقبل کی سیاست میں نواز شریف کا کیا کردار ہوگا نواز شریف پاکستان کے چوتھی بار وزیراعظم کیوں نہیں بن پائے؟

2018 کا الیکشن ووٹ کو عزت دو کے بیان پر الیکشن لڑنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی الیکشن 2024 کی انتخابی مہم کا معروف نعرہ "پاکستان کو نواز دو” تھا.

جبکہ انتخابی مہم کے دوران نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنوائیں گے جیسے پارٹی ترانے بھی ابھی اس جماعت کے ووٹرز کے ذہنوں سے محو نہیں پائے تھے کہ

اعلان ہوا کہ نون لیگ کی سربراہی میں بننے والی ممکنہ مخلوط حکومت میں وزارت عظمی کے عہدے کے لیے شہباز شریف کو نامزد کر دیا گیا ہے۔

ایک ہفتے قبل یعنی آٹھ فروری کو جب پولنگ کے روز مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف اپنے حلقے میں واقع پولنگ سٹیشن سے ووٹ ڈال کر باہر نکلے تو ایک صحافی نے ان سے الیکشن کے نتیجے میں مخلوط حکومت قائم ہونے کے امکان سے متعلق سوال کیا تو نواز شریف نے تھوڑا برہمی سے جواب دیا کہ ایسا نہ کہیں جو بھی حکومت بنے سادہ اکثریت سے ہی بنے تو بہتر ہے۔

مگر انتخابات کے نتیجے میں سادہ اکثریت ملنے سے متعلق نواز شریف کی خواہش پوری نہ ہو سکی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون قومی اسمبلی کی 75 نشستوں پر کامیاب ہو پائی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 ایم کیو ایم پاکستان کے 17 اور دیگر جماعتوں کے 25 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

جبکہ اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے انتخابات کے اگلے ہی روز نواز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام ایم کیو ایم اور آزاد اراکین کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی۔

اس دعوت کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مشروط انداز میں اس مخلوط حکومت کا حصہ بننے کا اعلان کیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اس دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سیاسی جوڑ توڑ کے دوران منگل کی رات مسلم لیگ نواز کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مخلوط حکومت میں وزارت عظمی کی امیدوار نواز شریف نہیں بلکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہوں گے۔

نون لیگ کے مطابق یہ فیصلہ مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف نے بذات خود کیا ہے یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں چہ میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث یہ فیصلہ لیا گیا؟

اور کیا یہ نواز شریف کو مستقبل میں سیاست سے دور کرنے کی سازش تو نہیں؟

لیکن اس بات کی تردید کرتے ہوئے مریم نواز نے ایکس سابقہ ٹویٹر پر لکھا کہ وزارت عظمی کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں۔

اگلے پانچ سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق و پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی بھی کریں گے۔
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کی ماضی کی تینوں حکومتوں میں عوام نے انہیں واضح اکثریت دی تھی اور یہ بات وہ انتخابی تقاریر میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں انہیں نواز شریف کے اصولی مؤقف کا پتہ ہے شہباز شریف اور میں ان کی سربراہی اور نگرانی میں کام کریں گے مریم نواز کی اس وضاحت کے بعد مزید سوالات سامنے آرہے ہیں جن کے جوابات ہم نے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

میاں نواز شریف ہی مسلم لیگ نون کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے ایسا ماحول کیوں پیدا کیا گیا؟

 

مسلم لیگ نواز نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی سطح پر یہی تاثر دیا تھا کہ مسلم لیگ نواز کے قائد اور تین بار سابق وزیراعظم رہنے والے نواز شریف ہی چوتھی مرتبہ کے لیے بھی نون لیگ کے امیدوار ہوں گے۔

انتخابات سے قبل عوامی جلسوں اور ذرائع ابلاغ کو دیے گئے اپنے انٹرویوز میں لیگی رہنماؤں نے سوچے سمجھے بغیر نواز شریف کو ہی وزارت عظمی کا امیدوار قرار دیا تھا۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے نون لیگ کے سینیئر رہنما محمد زبیر نے کہا کہ اگر وہ نون لیگ ایسا نہ کرتے تو جتنے ووٹ ملے ہیں شاید وہ بھی نہ ملتے۔

مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ صاحب نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو بتایا کہ مسلم لیگ نون کی اول روز سے خواہش تھی کہ نواز شریف کو ہی چوتھی بار وزیراعظم بنایا جائے۔

مگر چونکہ الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی اس لیے پارٹی نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائی مگر چونکہ یہ عوام کا فیصلہ ہے اور ہم اس فیصلے کی عزت کرتے ہیں رانا ثنا اللہ کے مطابق نواز شریف اور دیگر پارٹی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف مخلوط حکومت کو زیادہ احسن انداز میں چلا پائیں گے۔

کیا شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہی ان کی نامزدگی کی وجہ ہیں؟

نون لیگ کے سینیئر رکن محمد زبیر کہتے ہیں کہ تعلقات تو اب نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے بہت اچھے ہیں اب وہ ماضی کے لوگ نہیں رہے جن سے نواز شریف کو خطرہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف ایک کامیاب لیڈر کے طور پر واپس آنا چاہتے تھے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ انہیں عوام کی سپورٹ اور ہمدردی حاصل ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایک منقسم مینڈیٹ سامنے آیا انہوں نے کہا کہ سیاست میں چار سال بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ نواز شریف صاحب یہ سمجھ چکے ہیں کہ لوگوں کی ان سے ہمدردی اپنی جگہ لیکن اس الیکشن میں یہ واضح ہو گیا کہ آپ چار سال بعد اپنے ملک واپس آ کر دوبارہ اپنی جگہ آسانی سے نہیں بنا سکتے۔

رانا ثنا الله شہباز شریف کی نامزدگی کی وجہ ان کے اس ضمن میں تجربے کو قرار دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت پی ڈی ایم 16 ماہ تک کامیابی سے چلانے کا تجربہ ہے چنانچہ سورۃحال کو دیکھتے ہوئے سینیئر پارٹی لیڈرشپ کا یہ متفقہ فیصلہ ہوا ہے کہ موجودہ صورتحال میں شہباز شریف کو ہی وزیراعظم بنانا چاہیے۔

کیا نواز شریف کے لیے وزیراعظم کا امیدوار نہ بننے کا فیصلہ اچھا ہے؟

مسلم لیگ نواز کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی رائے میں وزارت عظمی کا امیدوار نہ بن کر نواز شریف نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔

سینیئر صحافی نصرت جاوید کے لیے نواز شریف کا وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ بالکل حیران کن نہیں وہ کہتے ہیں کہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ نواز شریف پہلے ہی بغیر اکثریت کے وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تھے اور اس کا عندیہ انہوں نے الیکشن کے روز ہی دے دیا تھا۔

اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ ایک اور نظریہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت کا سولہ ماہ کا ناکام دورانیہ دیکھ چکے ہیں انہیں پتہ ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل ہر سیاسی جماعت کی سوچ مختلف ہوتی ہے اور سب کو ایک ساتھ لے کر چلنا خاصہ مشکل کام ہے اس لیے ان کا وزیراعظم نہ بننا ایک اچھا فیصلہ ہے۔

سیاست میں مستقبل میں نواز شریف کا کردار

مسلم لیگ نون کے ایک رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی نیوز کو بتایا کہ نواز شریف ایک آزاد خیال انسان اور سیاستدان ہیں اور وہ اپنی جماعت کی حکومت کو پنجاب میں مستحکم کرنے میں مگن ہو جائیں گے لیکن شاید وہ جماعت کے فیصلہ سازی کے معاملات میں سامنے نہیں آئیں گے۔

صحافی اسلم نصیر اس تاثر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب میں اب نواز شریف کی جماعت کو تحریک انصاف کی صورت مقابلے کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اب مریم نواز اور مسلم لیگ نواز کے لیے امتحان ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں کیسے حکومت کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے اندر مسائل پیدا ہوں کیونکہ مقابلہ پہلے سے سخت ہو چکا ہے۔
ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے نواز لیگ کے رہنما عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ شاید چند لوگوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ نواز شریف وزارت عظمی کے امیدوار نہ بن کر سیاست سے دور ہو رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔

وہ بھرپور سیاست کر رہے ہیں اور شہباز شریف اور مریم نواز سے متعلق اہم فیصلے انہوں نے ہی سینیئر لیڈرشپ کی مشاورت سے لیے ہیں۔

مستقبل کی سیاست میں نواز شریف کا انتہائی اہم کردار ہوگا اگر چہ وہ وزیراعظم نہیں ہوں گے مگر وہ اپنی جماعت سے متعلق اہم فیصلے کرنے اور وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کے رہنمائی میں مصروف رہیں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Exit mobile version